Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حال دل

ماہنامہ عبقری - مارچ2015ء

جو میں نے دیکھا  سنا اور سوچا

اس جادو کا میرے پاس علاج نہیں

ایڈیٹر کے قلم سے

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے‘ صلہ رحمی کرنے سے رزق اور عمر بڑھتی ہے۔ آج میں ایک خاندان کی چشم دید کہانی آپ کو سناتا ہوں‘ وہ خاندان اب بھی مجھے ملتا رہتا ہے‘ لاہور کی ایک بڑی امیر سوسائٹی میں بڑا گھر‘ والد نے بڑی چاہ سے گھر بنایا‘ بیٹے کو ایک خوبصورت بہو کے حصول کیلئے خوبصورت بنا کر پیش کیا ‘بہو مل گئی‘ گھر میں آئی‘ بہو نے محسوس کیا گھر میں ساس‘ سسر اور دیور ہیں۔ وہ شروع ہی سے علیحدہ اور تنہا رہنے کا مزاج رکھتی تھی‘ وہ گھر میںماں سے بھی ہروقت لڑتی رہتی تھی‘ مالدار ماں باپ کی بیٹی تھی‘ پیسہ‘ دولت‘ چیزوں کی گھر میں ریل پیل تھی۔ ماں اس کے مزاج کو برداشت کرتی تھی‘ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی تھی بیٹی یہ مزاج میرے ساتھ چل سکتا ہے لیکن یہ سسرال میں نہیں چل سکتا۔ وہ ماں کی ہر نصیحت کو طعنہ سمجھتی‘ سسرال میں آتے ہی اس نے ساس کے ساتھ چند ہی دنوں کے بعد اپنا ناموافق رویہ شروع کردیا اور جتنا بھی زیادہ تنگ کرنا تھا جی بھر کر تنگ کیا۔ غم اور دکھ نے ساس کو لاعلاج بیماری میں مبتلا کردیا۔ وہ ٹھنڈی سانسیں لے لے کر کہتی تھی بیٹے پالنے کا مطلب دکھ پالنا ہے کیا۔۔۔؟ کیا بیٹے اس لیے پالے جاتے ہیں کہ اپنے اردگرد غم اور دکھ پالے جائیں‘ اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا‘ آخر وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی‘ رسمی آنسوؤں نے اس ماں کو رخصت کیا ‘اب صرف سسر باقی رہ گیا۔ اسے سسر بھی چبھتا تھا‘ یہ کیوں زندہ ہے؟ اس کا رویہ سسر کے ساتھ بھی وہی رہا جو ساس کے ساتھ تھا۔ اس کے رویہ کو سسر بھی برداشت نہ کرسکا اور وہ بھی لاعلاج روگوں کو اپنے سینے سے لگا بیٹھا اور یوں کچھ ہی عرصہ کے بعد سسر بھی اس زندگی سے روٹھ کر ہمیشہ کیلئے موت کو سینے سے لگابیٹھا۔۔۔! اور گھر خالی ہوگیا۔ بس۔۔۔!!! اب خدائی پکڑ کا نظام شروع ہوا غربت اور تنگدستی نے ڈیرے ڈالنے اور بے برکتی نے پیچھا کرناشروع کیا۔ شاید ان بڑوں کی دعائیں تھیں یا رزق ان بڑوں کامقدر تھا جنہوں نے بڑی چاہ سے اس بہو کو بیاہ کر لانے میں بڑی تگ و دو کی۔ یہ اس ناشکری بہو کا ہاتھ سے لکھا خط میرے سامنے پڑا ہے۔’’میرے مالی حالات اس قدر خراب ہیں کہ پٹرول کے پیسے نہیں ہیں کہ موٹرسائیکل چلا سکیں‘ دس دن تین سو روپے میں گزارے‘ میں نے مارچ کے آخری ہفتے اور اپریل میں بھی دس دن ایک  وقت کا کھانا کھایا۔ بچوں اور شوہر بھی اِدھر اُدھر سے جاکر کھانا کھالیتے ہیں لیکن میں اور بچے کیا کرتے؟ گھر میں پرانے چاول پڑے تھے سات دن مستقل بچوں کو وہی ابال اور پکا کر کھلائے۔ میرے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ میں کھلاتی میرا بہت مذاق اڑایا گیا‘ میں سوچ نہیں سکتی اور آپ گمان نہیں کرسکتے یہ دس دن میں نے کیسے گزارے۔ غربت نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں‘ تنگدستی نے میرے آنگن کو ڈس لیا ہے۔ مجھ سے رزق‘ عزت روٹھ گئی‘ سب گھر والے خفا ہیں۔ بچیاں مجھ سے کھانا مانگتی ہیں‘ میرے پاس کھانا نہیں‘ میرے پاس کپڑے نہیں‘ میں سردیوں کے کپڑے گرمیوں میں پہنتی ہوں۔ میرے پاس لباس ہی یہی ہے‘ پچھلے ماہ ہم دونوں میاں بیوی لنڈے بازار چھپ کر گئے‘ وہاں سے کچھ کپڑے اور کچھ پہننے کی چیزیں خریدیں۔ سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اب مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہورہا ہے کہ میں کس طرح اپنی ساس اور سسر کو تڑپاتی تھی اور میں کس طرح انہیں رلاتی تھی۔ مجھے یہ احساس اندر اندر کھائے جارہا ہے‘ میرا دل بے چین ہے‘ میری طبیعت ٹوٹی ہوئی ہے۔ میرا من ختم ہوگیا ہے‘ میری سب چاہتیں اب ختم ہوچکی ہیں۔ مجھے صرف ایک چاہت ہے وہ ہے دو وقت پیٹ بھر کر روٹی۔۔۔۔ان سات دنوں میں نے اور میرے بچوں نے چاولوں کے ہر لقمے پر اللہ کا شکر ادا کیا کیونکہ میرے اندر کی بتیاں بجھ گئی ہیں‘ یہ دس دن میں قبر میں بھی نہ بھولوں گی۔ اب میں ہر سانس پر استغفار اور شکر کرتی ہوں۔ میں تو بہت اونچی پرواز پر تھی لیکن میرے سکھ‘ میرے چین‘ میری روٹی‘ میرے لقمے اور میری زندگی کو بس میری کوئی الٹی ادائیں کھاگئیں۔ میں آج اس وقت کو روتی ہوں جب میں نے زندگی کا یہ انداز اختیار کیا جو سب کو نہیں بھاتا تھا لیکن مجھے بھاتا تھا۔ آج یہ انداز مجھے نہیں بھاتا لیکن میں بھی کسی کو نہیں بھاتی۔ میں کیا کروں؟ بہت پریشان ہوں غربت‘ فقر اور لقمہ نہ ملنے نے میری زندگی کے چین کو اجاڑ دیا ہے۔ اے کاش! میں ہرگز ہرگز ایسا نہ کرتی۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 352 reviews.